Prophet Muhammad: The Role Model (Eight Lectures on his Life known as Khutbat-e Madras)

This work contains eight lectures on various aspects of Prophet Muhammad’s life. These lectures were delivered in October and November 1925 in Madras, hence the book is popularly known in Urdu as Khutbat-e Madras (Madras Lectures). Its author was a student of Allama Shibli Nu’mani and completed most parts of the legendary and unsurpassed Urdu biography of the Prophet, Siratun Nabi, in seven volumes, that he started.

150.00
Quick View
Add to cart

Syed Shahabuddin: Outstanding Voice of Muslim India

Compiled by Mushtaque Madni
Published by P.A. Inamdar

(112pp+8 color photo pages, Large format/HB)
Year: 2013

The book has a forward by Hon’ble M. Hamid Ansari and contains write-ups on Syed Shahabuddin by eminent personalities.

Contents:

Foreword
A ‘Ghazi’ of Social Crusade
A Lustrous Gem
The Redoubtable Fighter
A Man of Honour and Integrity
Cornucopia of the Choicest Attributes
Shahab Bhai
A Close Associate’s Perspective
Man, to be Evaluated by the Posterity
Impressions about the Personality of Syed Shahabuddin
A Crusader with a Missionary Zeal
Man with Reason, Mission and Vision
Indeed Different than Others
A Friend Whom I Often Opposed
The Fearless and Uncompromising
A Proud Patriot
Syed Shahabuddin in North America
Selflessness, Thy Name is Syed Shahabuddin
My Boon Companion
A Great Man with Full of Might Have Beens
An Uncompromising Advocate of Muslim Reservation
A Misconstrued Giant
An Introduction to the Political Ideas of Syed Shahabuddin
An Exclusive Interview with Syed Shahabuddin

Media Coverage/Reviews:

Luminaries laud life and works of iconic Syed Shahabuddin
http://muslimmirror.com/eng/luminaries-laud-life-and-works-of-iconic-syed-shahabuddin/

An Intellectual Debate in Delhi and Washington over Syed Shahabuddin
http://muslimmirror.com/eng/an-intellectual-debate-in-delhi-and-washington-over-syed-shahabuddin/

 

400.00
Quick View
Read more

The Stalwarts: Builders and leaders of Mushawarat

The All India Muslim Majlis-e Mushawarat, or Mushawarat for short, emerged half a century ago in very difficult times when communal riots had engulfed many parts of north India and some Muslims had started even leaving the country in despair. In those difficult times, some selfless leaders of the community from all over the country came together, discussed and formed a common platform for all Muslims, to think, guide and interact with the forces in society. This book sheds lights on the extraordinary lives of those stalwarts and their followers who kept the flames burning and still manage to keep that common platform intact and strong giving voice to the community nationally and internationally.

180.00
Quick View
Add to cart

اسپتال سے جیل تک—گورکھپور اسپتال سانحہ Aspataal se jail tak — Gorakhpur aspataal Saaneha (Urdu)

منہدم سرکاری صحت خدمات، سنگین طبی بحران۔ 63 ؍ بچوں، 18؍بالغوں کا قتل عام۔ اصل میں کیا ہوا، آزمائش میں گرفتار ڈاکٹر کی زبانی۔ 10 ؍اگست 2017 کی شام کو گورکھپور، اتر پردیش کے گورنمنٹ بابا راگھو داس میڈیکل کالج کے نہرو اسپتال میں مائع آکسیجن ختم ہوگئی۔ اطلاعات کے مطابق، اگلے دو دنوں میں، اسّی سے زیادہ مریض — تریسٹھ بچے اور اٹھارہ بالغ — اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ درمیانی گھنٹوں میں کالج کے شعبہ اطفال کے سب سے جونیئر لیکچرارڈاکٹر کفیل نے آکسیجن سِلنڈروں کو محفوظ بنانے، ہنگامی علاج کے انتظام اور مزید اموات کو روکنے کے لیے عملے کو جمع کرنے کے لیے غیر معمولی کوششیں کیں۔ جیسے ہی اس سانحے نے قومی توجہ حاصل کی، ڈاکٹر خان کو بحران پر قابو پانے اور صحت کے نظام کی طرف توجہ مبذول کرنے کے لیے ان کے انتھک کام کے لیے ایک ہیرو کے طور پر سراہا گیا، لیکن کچھ دن بعد، انھوں نے خود کو معطل اور برطرف پایا۔ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ ان کے ساتھ نو افراد پر بد عنوانی اور طبی غفلت سمیت سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ جلد ہی انھیں اس کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ گورکھپور اسپتال کا سانحہ اور اگست 2017 کی اس اندوہناک رات کے واقعات ڈاکٹر کفیل خان کی زندگی کا پہلا تاریخی تجربہ ہیں اور اس کے بعد جو کچھ تلخ جدوجہد، غیر معینہ مدت تک کی معطلی، آٹھ ماہ کی طویل قید اور اس کے بعد کا دور تھا، انتہائی بے حسی اور ہراساں کرنے نیز انصاف کے لیے ایک انتھک جدوجہد کی کہانی ہے۔

375.00
Quick View
Add to cart

بارِ شناسائی – کچھ لوگ، کچھ یادیں، کچھ تذکرے – ان شخصیات کے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ بنائی اور بگاڑی

پاکستان کے سفارت کار ہونے کے باوجود ان کے افسانے برسہابرس ہندوستان کے ممتاز رسائل و جرائد میں چھپتے رہے، خصوصاً ان کی جنم بھومی دلّی سے شائع ہونے والے ”شمع“ اور ”بیسویں صدی“ میں۔ قلم کے ناطے سے ہندوستان سے ان کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ اب شمالی امریکہ میں جا بسے ہیں، بین الاقوامی سیاست اور حالاتِ حاضرہ پر ان کے انگریزی زبان کے کالم پابندی سے ہندوستان کے مو ¿قّر اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں جن میں ”دی ملّی گزٹ“ اور ”دی نیو انڈین ایکسپریس“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ زیر نظر کتاب ”بارِ شناسائی“ پاکستان کے حوالے سے، اور اس کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی تناظر میں مرتب ہونے والی تاریخ کے ضمن میں، ان مشاہدات اور تا ¿ثرات کا مجموعہ ہے جو کرامت نے ایک سفارت کار اور بیوروکریٹ کی حیثیت سے اخذ کئے۔ یہ ان شخصیات کی کردار نگاری اور خاکہ کشی ہے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں اور جنہیں کرامت نے پاکستان میں اور بیرونِ پاکستان قریب سے دیکھا۔ یہ خاکے ایک ایسے سفارت کار کے رشحاتِ قلم ہیں جس نے بیوروکریسی کے بت کے قدموں پر نہ اپنے اندر کے انسان کو قربان کیا اور نہ ہی اس قلمکار کو بھینٹ چڑھایا جس نے اپنے قلم کی حرمت اور سچائی کا سر بلند رکھنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔

250.00
Quick View
Add to cart

ستاروں سے آگے : ایک پر عزیمت خاتون کی خود نوشت داستان

پندرہ سولہ سال کی ایک نوجوان لڑکی، ہنستی کھیلتی، نوخیز جوانی کی امنگوں سے بھرپور، کھیل کود اور رقص میں حصہ لینے والی، اچانک کمر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے پہیوں والی کرسی سے جڑ جاتی ہے۔ دوائیاں ، دعائیں، ٹونے ٹوٹکے، قدرتی علاج، آپریشن، کچھ بھی کام نہیں آیا۔ موت کی دعائیں اور خودکشی کی کوششیں بھی رائیگاں گئیں۔

مایوسی اور بے بسی کی اس اندھیری رات میں اسی کی طرح پہیوں والی کرسی سے جکڑے ایک بزرگ روشنی کی کرن بن کراس کی رہنمائی کرتے ہیں اوریوں جنم لیتی ہے ایک نئی شخصیت: نسیمہ ہُرزُک۔ اپاہجوں کے لیے بے مثال جدوجہد کرنے والی، رات کے اندھیرے میں اکےلے ہی اپاہجوں کے بدترحالات پر آنسو بہانے والی لیکن اگلی صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ لیے اپاہجوں کی زندگی سنوارنے کے کام میں تن من دھن سے جٹ جانے والی۔

ےہ کتاب اپاہجوں کے لیے اسکول، ہاسٹل، تربیت گاہیں اور نوکری کے ذرائع فراہم کرنے کے لیے ”ہیلپرز آف دی ہینڈیکیپڈ، کولہاپور“ نام کی تنظیم پچھلے (۷۲) سالوں سے چلا نے والی ایک قدآور شخصیت کی انتھک جدوجہد کی خودنوشت کہانی ہے۔ یہ سچی کہانی بتاتی ہے کہ ہمت اور عزم کے ساتھ کسی بھی مشکل کو آسان کیا جاسکتا ہے۔

150.00
Quick View
Add to cart

طفلِ برہنہ پا کا عروج Tifl-e Barhanapa ka Urooj – Aap Beeti (Urdu)

”طفل ِبرہنہ پا کا عروج“ ان کی دلچسپ آپ بیتی ہے جو ان کے ۷۲ ؍سال کے تجربات اور یاد داشتوں کا نچوڑ ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ اگر انسان کا عزم راسخ ہو اور وہ جدو جہد کرتا رہے تو شدید ترین مشکلات کے با وجود ترقی کی اعلی ترین منزلیں طے کر سکتا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنی قوم کو ایک خاص پیغام دیا ہے: رجعت پسند کٹر پنتھی گروہوں کا یہ دعویٰ کہ وہ اکثریت کے نمائندے ہیں ایک مغالطہ ہے۔ اکثریت نہ متعصب ہے، نہ غیر روادار، نہ کٹر پنتھی ، نہ منافرت پسند۔ امن و آشتی کا راستہ یہ ہے کہ اکثریت سے ربط و ضبط اور میل ملاپ بڑھایا جائے اور ان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔

300.00
Quick View
Add to cart

قيدى نمبر100: بھارتی زنداں کے شب و روز

بھارتی تعذیب خانوںمیں بیتے روح فرسا لمحات کی روداد قلمبند کرنا میرے لئے آسان نہ تھا۔ ہر لمحہ جب بھی میں قلم ہاتھ میں لے کر لکھنے بیٹھتی تو جیل کی تاریک زندگی کے اذیت ناک مناظر کے ہوش ربا نقوش ذہن کے پردے پر تازہ ہوکر مجھے بے چین و بے قرار کر دیتے اور میں سخت ذہنی تناو¿ میں مبتلا ہوجاتی۔ پھر بہت دیر تک اسی حالت میں پڑی رہتی۔ بڑی مشکل سے سنبھل کر پھر لکھنا شروع کر دیتی، مگر لہو لہان یادوں کا ہجوم نمودار ہوتے ہی پھر ذہنی تناو¿ مجھے گھیر لیتا۔ یہ سلسلہ کتاب کی تخلیق کے پورے عمل کے دوران جاری رہا۔
رہائی پانے کے بعد سے میں بے خوابی کی بیماری میں مبتلا ہوں۔ نیند کی دوا کھائے بغیر مجھے نیند نہیں آتی ہے۔ رات رات بھر جاگتی رہتی ہوں۔گھٹن بھرے خواب اب بھی مجھے ستاتے ہیں ۔ خواب میں میں جیل، جیل کی سلاخیں، جیل کا اسٹاف اور جیل کا پرتناو¿ ماحول دیکھتی ہوں۔ ابھی بھی جب شام کے چھ بجتے ہیں تو ایک خوف سا طاری ہو جاتا ہے۔ چھ بجے کے بعد گھر سے باہر نکلنا مجھے عجیب سا لگتا ہے، کیونکہ شام کے چھ بجے جیل کی گنتی بند ہو جاتی تھی اور اس عادت نے میرے ذہن کو مقفل کر دیا ہے۔ اب بظاہر میں آزاد دنیا میں ہوں مگر ابھی بھی بنا ہاتھ پکڑے میں سڑک پر اطمینان سے نہیں چل سکتی ہوں کیونکہ پانچ سال تک پولیس والے میرا ہاتھ پکڑے مجھے تہاڑ جیل سے عدالت اور عدالت سے تہاڑ تک لے جایا کرتے تھے ۔ اس عادت نے میرے ذہن میں وہ نقوش چھوڑے ہیں جن کا مٹنا مشکل ہے۔
— اس کتاب سے ایک اقتباس

انجم زمرد حبیب

200.00
Quick View
Read more

अस्पताल से जेल तक—गोरखपुर अस्पताल त्रासदी Aspataal se jail tak — Gorakhpur aspataal traasdee (Hindi)

“ध्वस्त सरकारी स्वास्थ्य सेवा, भयानक चिकित्सा संकट।
63 बच्चों, 18 वयस्कों का नरसंहार।
वास्तव में क्या हुआ, आज़माइश में फंसे डॉक्टर की ज़ुबानी।
10 अगस्त 2017 की शाम को, उत्तर प्रदेश के गोरखपुर में राजकीय बाबा राघव दास मेडिकल कॉलेज के नेहरू अस्पताल में तरल ऑक्सीजन ख़त्म हो गई। सूचना के अनुसार, अगले दो दिनों में, अस्सी से अधिक रोगियों —तिरसठ बच्चों और अठारह वयस्कों — की जान चली गई। बीच के घंटों में, कॉलेज के बाल रोग विभाग में सबसे जूनियर लेक्चरर डॉ. कफ़ील ख़ान ने ऑक्सीजन सिलेंडरों को सुरक्षित करने, आपातकालीन उपचार करने और अधिक से अधिक मौतों को रोकने के लिए कर्मचारियों को एकजुट करने के असाधारण प्रयास किए। …

375.00
Quick View
Add to cart

क़ैदी नम्बर 100: कारागार के दिन-रात

भारतीय यातना घरों में बीते अत्यन्त कष्टदायी क्षणों के बारे में लिखना मेरे लिए आसान नहीं था। हर पल जब भी क़लम हाथ में लेकर लिखने बैठती तो जेल के अंधकारमय जीवन के कष्टदायी दृश्यों के होश उड़ा देने वाले चिह्‌न मेरे दिमाग़ में ताज़ा हो कर मुझे फिर से बेचैन कर देते और मैं बहुत ज़्‍यादा मानसिक तनाव में आ जाती। बड़ी देर तक उसी हालत में पड़ी रहती। बहुत मुश्किल से फिर से लिखना शुरू करती, मगर रक्त रंजित यादों की भीड़ फिर से प्रकट हो जाती और मैं दोबारा मानसिक तनाव से घिर जाती। यह सिलसिला किताब लिखने के पूरे काम के दौरान चलता रहा।

रिहाई के बाद से अनिद्रा की बीमारी से ग्रस्त हूं। नींद की दवा खाए बिना सो नहीं सकती हूं। रात-रात भर जागती रहती हूं। घुटन भरे सपने मुझे अब भी आते हैं। सपने में जेल, जेल की सलाखें, जेल के स्‍टाफ़ और वहां का तनावपूर्ण माहौल देखती हूं। अभी भी जब शाम को छः बजता है तो एक भय सा छा जाता है। छः बजे के बाद घर से बाहर निकलना अजीब सा लगता है, क्योंकि जेल में छः बजे गिनती बंद हो जाती थी और उस आदत ने मेरे दिमाग़ को क़ैद कर दिया है। वैसे तो अब आज़ाद दुनिया में हूं, लेकिन अभी भी बिना हाथ पकड़े मैं सड़क पर आसानी से नहीं चल सकती हूं, क्योंकि पांच साल तक पुलिस वाले मेरा हाथ पकड़ कर तिहाड़ जेल से अदालत और अदालत से तिहाड़ जेल तक ले जाया करते थे। इस आदत ने मेरे दिमाग़ पर वे निशान छोड़े हैं जिनका मिटना मुश्किल है।

—इस किताब का एक अंश / अंजुम ज़मुर्रद हबीब

200.00
Quick View
Add to cart

नंगे पाँव बालक का उदय—एक आत्मकथा Nangey paanw balak ka uday: Ek atmakatha (Hindi)

लेखक देश के प्रसिद्ध वैज्ञानिक, शिक्षा विशेषज्ञ, शिक्षा प्रबंधक, पद्मश्री प्रोफ़ेसर जलीस अहमद ख़ाँ तरीन का जन्म 6 अप्रैल 1947 को मैसूर में हुआ। उन्होंने 1967 से 2007 तक का समय मैसूर विश्वविद्यालय में शिक्षण एवं शोधकार्य में व्यतीत किया। 2001 से 2004 के दौरान कश्मीर विश्वविद्यालय के कुलपति रहे, फिर 2007 से 2013 के दौरान पांडिचेरी विश्वविद्यालय के कुलपति रहे और 2013 से 2015 के दौरान ही एस. अब्दुर्रहमान विश्वविद्यालय, चेन्नई के कुलपति रहे। वह मुस्लिम एजुकेशन सोसाइटी मैसूर के संस्थापक सचिव थे और फ़िल्हाल उसके अध्यक्ष हैं।

300.00
Quick View
Add to cart